در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے
Poet: امجد اسلام امجد By: Ghani, Karachi
در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے
مجھے روشنی کی تلاش تھی مجھے روشنی کی تلاش ہے
غم زندگی کے فشار میں تری آرزو کے غبار میں
اسی بے حسی کے حصار میں مجھے زندگی کی تلاش ہے
یہ جو سرسری سی نشاط ہے یہ تو چند لمحوں کی بات ہے
مری روح تک جو اتر سکے مجھے اس خوشی کی تلاش ہے
یہ جو آگ سی ہے دبی دبی نہیں دوستو مرے کام کی
وہ جو ایک آن میں پھونک دے اسی شعلگی کی تلاش ہے
یہ جو ساختہ سے ہیں قہقہے مرے دل کو لگتے ہیں بوجھ سے
وہ جو اپنے آپ میں مست ہوں مجھے اس ہنسی کی تلاش ہے
یہ جو میل جول کی بات ہے یہ جو مجلسی سی حیات ہے
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں مجھے دوستی کی تلاش ہے
More Amjad Islam Amjad Poetry
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
وسیم
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
شاہ رخ
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
رضا






