دراصل کر گئی ہیں دل میں گھر تری آنکھیں
ہیں مدتوں سے مری ہم سفر تری آنکھیں
سنا ہے لطف و عنایت ہے اور لوگوں پر
ہمارے حال سے ہیں بے خبر تری آنکھیں
اندھیرے کا کوئی نام و نشان ہی نہ رہے
ادھر ہو روشنی دیکھیں جدھر تری آنکھیں
یہ اور بات کہ اظہار ہو نہیں سکتا
نگاہ و دل میں بسی ہیں مگر تری آنکھیں
مجھے بھی تو کئی اشعار شب میں کہنے تھے
پریشاں کرتی رہیں رات بھر تری آنکھیں
تصورات میں جاری رہا سفر عدنانؔ
جدا ہوئیں نہ کسی موڑ پر تری آنکھیں