درد ہو دل میں تو دوا کیجے
میرےحق میًں بھی اک دعا کیجے
سیکھ جاؤںمحبتوں کےحروف
ایسے رشتے کی ابتداء کیجے
آتش دید اور بڑھتی ہے
یوں نقابوں میں نہ ملا کیجے
آپ اپنی سنائے جاتے ہیں
کچھ ہماری بھی تو سناکیجے
بات کرنے کی ہو جو خلوت میں
یو ں سر عام نہ کیا کیجے
جان جائیں گے بے قراری مری
خود کو تاروں کا ہمنوا کیجے
اک شرارت تھی اسکا کہنایہ
یونہی بےکار کیا وفا کیجے
ٹوٹ جائے گا آئینہ د ل کا
ہمکو خود سے نہ اب جداکیجے
دنیا داری بہت نبھا ئ حیا ء
رسم الفت بھی اب ادا کیجے