دروازے پر دستک ہو مگر باہر کوئی نہ ہو
کون سمجھے گا دیوانے کی دیوانگی کا دُکھ
وہ خوب رو اب کہ نہ آیا ندی کنارے
کون سمجھے گا کشتی اور پانی کا دکھ
تم نے تو دیوار سے اک تصویر اُتاری ہے
کون سمجھے گا تصویر اور دیوار کا دکھ
جس گھر میں ماں نہیں ہوتی ضیاؔء
کون سمجھے گا اُس آنگن اور اولاد کا دکھ