دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا
جو بڑھ کے تائید حق کرے گا وہی سزاوار دار ہوگا
بلا غرض سادہ سادہ باتوں سے ڈال دیں رسم دوستی کی
جو سلسلہ اس طرح چلے گا وہ لازماً پائیدار ہوگا
چلو محبت کی بے خودی کے حسین خلوت کدے میں بیٹھیں
عجیب مصروفیت رہے گی نہ غیر ہوگا نہ یار ہوگا
ترے گلستاں کی آبرو ہے مہک تری انفرادیت کی
تو کسمپرسی سے بجھ بھی جائے تو غیرت نو بہار ہوگا
جہاں نہ تو ہو نہ کوئی ہمدرد ہو نہ کوئی شریف دشمن
میں سوچتا ہوں مجھے وہ ماحول کس طرح سازگار ہوگا
بہشت میں بھی جناب زاہد تمہیں نہ ترجیح مل سکے گی
وہاں بھی خوش ذوق عاصیوں کا تپاک سے انتظار ہوگا
عدمؔ کی شب خیزیوں کے احوال یوں سناتے ہیں اس کے محرم
کہ سننے والے یہ مان جائیں کوئی تہجد گزار ہوگا