دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا
بل بے گداز عشق کہ خوں ہو کے دل کے ساتھ
سینے سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ہے موج بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ
بیچارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا
دریائے اشک سے دم تحریر حال دل
کشتی کی طرح میرا قلم دان بہہ گیا
یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پانی کے آبلے
نالہ سا ایک سوئے بیابان بہہ گیا
تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے
سب مول تیرا لعل بدخشان بہہ گیا
کشتی سوار عمر ہوں بحر فنا میں ذوقؔ
جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا
تھا ذوقؔ پہلے دہلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا