دستار تار تار ہے کندھوں پہ شال ہے
نامِ حسین غم میرے رکھتا بحال ہے
آنکھوں کی چلمنوں پہ جو اشکوں کی جھڑی ہے
ڈوبا غمِ حسین میں سارا ہی سال ہے
سر کٹ کے نوکِ نیزہ پہ آیا حسین کا
اور اسماعیل کا نہ ہوا بھیگا بال ہے
کربل کی پیاس کا تجھے شاید پتہ نہیں
اک دن کے روزہ نے تجھے رکھا نڈھال ہے
آنسو میرے یوں دیکھ کے حیرت ہو کر رہے
مجھ کو تو لگتی یہ بھی یزیدوں کی چال ہے
دیتے رہو مثالیں مجھے حسن کی مگر
حسن و حسین کی نہیں کوئی مثال ہے
کہتے ہیں لوگ مجھ کو حسیں ہو گیا ہوں میں
یہ تو غمِ حسین کا مجھ پر جمال ہے
الفاظ مر رہے ہیں تو نام حسین لو
زندہ سخن کو اس طرح رکھنا کمال ہے
اٹھتے نہیں قدم میرے چلنے کے واسطے
گھرانہ نبی کا جب سے ہوا یرغمال ہے
آرب مجھے سہارا ملا اہلِ بیت کا
ورنہ تو زندگی مری مجھ کو وبال ہے