دسمبر
Poet: علی احمد صاحب By: علی احمد صاحب, islamabad
سردیوں کا موسم ہے
دسمبر آنے والا ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
بارشیں دسمبر کی
بھیگتے ہی گزریں گی
سُونی بانہوں میں اپنی
بارشیں سمیٹیں گے
سینے سے لپیٹیں گے
آنسوؤں کے موتی بھی
بارشوں میں دھوئیں گے
پھر کبھی نہ روئیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
سرد راتیں دسمبر کی
اُداس نہ گزاریں گے
یادگار رکھیں گے
گُنگناتی یخ بستہ اُنگلیوں کے پُوروں کو
بالوں میں پروئیں گے
غم گداز بستر میں
حسرتوں کے کمبل میں
پُرسکون سوئیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
آنے والے دسمبر کی سبھی شامیں
عجب طور سے گزاریں گے
سنا ہےدسمبر کی شامیں اُداس ہوتی ہیں
ڈھلتا ہوا سورج دل ڈباتا ہے
کہ اِس موسم میں تنہائی بڑی دل گرفتہ ہوتی ہے
ابھی گزرے دسمبر میں
کچھ ایسا ہی حال اپنا تھ
مگر اِس بار کچھ نیا کرنے کو مَن ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
صاحب نامِ جاناں کو اب کے شام لکھیں گے
شام کی کہانی میں خود کو گُمنام لکھیں گے
اُس کو مئے پکاریں گے خود کو جام لکھیں گے
دسمبر کی حسیں شاموں میں تازہ کلام لکھیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
صبح کے اُجالوں میں
ماہ دسمبر کے سورج کی آب و تاب دیکھیں گے
ڈوبتے برس کا چڑھتا آفتاب دیکھیں گے
اب کے ہم نے سوچا ہے
گُزرے پل کی یادوں کو
جھوٹے سچے وعدوں کو
سرے سے بھول جانا ہے
کسی سے کچھ گلہ شکوہ نہیں کرن
نہ کچھ اُمید رکھنی ہے
بیچ محفل سے اُٹھ جانے کی عادت چھوڑ دینی ہے
خواب خواب چہروں کو
ان کہے شعروں کو
بے محل ہی کہنا ہے
برف برف آنگن سے
حرف حرف چُننا ہے
آدھے ادھورے سپنوں کو
نئے سرے سے لکھنا ہے
اب کے ہم نے سوچا ہے
دسمبر میں دسمبر کو
نئے سال سے پہلے
الوداع بھی کہنا ہے
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے
چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
شوقین ہو جس کو پڑهنے کے تم
دسمبر کی وه اداس شاعری ہوں میں
جاتے ہوئے دسمبر کی کھڑکی سے
میں نے ہنستا ہوا جنوری دیکھا
اف یہ دسمبر کی آخری گھڑیاں
میرے پہلو میں کاش تم ہوتے
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ھمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
ان دنوں تعلق تھوڑا مضبوط رکھنا
سنا ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے
دسمبر جب بھی لوٹتا ہے میرے خاموش کمرے میں
میرے بستر پر بکھری کتا بیں بھیگ جاتی ہیں
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
جم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں
جو ہمیں بھول ہی گیا تھا اسے
یاد آئے ہیں ہم دسمبر میں
سارے شکوے گلے بھلا کے اب
لوٹ آ اے صنم دسمبر میں
کس کا غم کھائے جا رہا ہے تمہیں
آنکھ کیوں ہے یہ نم دسمبر میں
یاد آتا ہے وہ بچھڑنا جب
خوب روئے تھے ہم دسمبر میں
وہی پل ہے وہی ہے شام حزیں
آج پھر بچھڑے ہم دسمبر میں
بس یہی اک تمنا ہے اندرؔ
کاش مل جائیں ہم دسمبر میں






