دسمبر آؤ کہ میں نے تمہاری خاطر
یہ پورا سال گِن گِن کر گذارا ہے
تمہارے ساتھ وابستہ ہیں میری ان گنت یادیں
کبھی پایا ، کبھی کھویا ، کبھی ہنس د یا ، کبھی رویا
تیری شامیں ، میری سانسیں
تیرے وہ دن کسی کے بِن
کبھی حدّت کی چاہت میں
بہت ہی برف لہجوں کو
کبھی ہنس کر بھلا ڈالا
کبھی یوں ہی گنوا ڈالا
تیرے سینے میں چھپ کر میں نے اپنے ہجر لمحوں کو بھلایا ہے
تیری بھیگی دوپہروں میں یہ میں نے راز پایا ہے
کہ انسان کس طرح سے برف ہو جاتے ہیں ہجراں میں
جدائی روگ بن کر امر ہو جائے
تو پھر خوشیاں اس طرح سے روٹھ جاتی ہیں
جس طرح سے ہر گزرتا سال
دسمبر کی آخری شب کے بعد
ہم سے روٹھ جاتا ہے