دشت بے آب کی طرح گزری
زندگی خواب کی طرح گزری
چشم پر آب سے تری خواہش
رقص مہتاب کی طرح گزری
ایک صورت کو ڈھونڈتے ہر شب
چشم بے خواب کی طرح گزری
ہجر کی انجمن سے ہر ساعت
اشک بے تاب کی طرح گزری
داستاں میری اس کہانی کے
ان پڑھے باب کی طرح گزری
دل کے دریا سے ہر خوشی امجدؔ
ایک گرداب کی طرح گزری