دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو
وہ زندگی ہی نہیں ہے جو ناتمام نہ ہو
جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے
کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو
کوئی چراغ نہ آنسو نہ آرزوئے سحر
خدا کرے کہ کسی گھر میں ایسی شام نہ ہو
عجیب شرط لگائی ہے احتیاطوں نے
کہ تیرا ذکر کروں اور تیرا نام نہ ہو
صبا مزاج کی تیزی بھی ایک نعمت ہے
اگر چراغ بجھانا ہی ایک کام نہ ہو
وسیمؔ کتنی ہی صبحیں لہو لہو گزریں
اک ایسی صبح بھی آئے کہ جس کی شام نہ ہو