دعا کو ہاتھ اٹھاۓ ہیں
اور سوچ رہی ہوں کیا مانگوں
اپنے درد کی میں دوا مانگوں
یا رب سے میں شفا مانگوں
یہ دل بے چیں رہتا ہے
سکوں کی میں ردا مانگوں
میں نیکی کی جزا مانگوں
یا معافیِ خطا مانگوں
اپنی سب رضاؤں میں
رب کی میں رضا مانگوں
کیوں زندگی یوں بے رنگ ہے
تو رنگ اک نیا مانگوں
محبت ہو گئی تھی جو
کیا اسکی میں سزا مانگوں
اس دل کا حال سنانے کو
میں کیوں نہ دلرُبا مانگوں
اور دل بھی تو بہلانا ہے
سو پرسکون فضا مانگوں
زندگی کی کشتی بچانے کو
میں اک ناخدا مانگوں
اپنے چاہنے والوں کی
میں عمر رواں مانگوں
اب ہاتھ جو اٹھاۓ ہیں
تو اور کیا کیا مانگوں
ان سوچوں ہی گم تھی
میں پھر یوں ہی خیال آیا کہ
کیوں اور کچھ بھلا مانگوں
خدا سے میں خدا مانگوں
خدا مجھے جو مل حاۓ
اور کچھ میں نہ مانگوں
کیوں کہ جو رب ہے نہ وہی سب ہے.....