مانا کہ خزان کا موسم ہے پت جھڑ ہے اداسی ہے
نہ دیکھ شجر کتنا ویران ہےنئی کونپل تو نکل رہی ہے
کالی گھٹا چھائی ہے منتظرر ہو کہ برس ہی رہی ہے
نہ چھوڑو امید کہ اس امید پہ ہی دنیا چل رہی ہے
سوچ کا ہے فرق سارا مثبت و منفی پل رہی ہے
راہ میں بھلے اندھیر ہو منزل پہ روشنی جل رہی ہے
دعا بھی کرو دوا بھی کروکون سا علاج باقی ہے
سدا کہیں جائے نہ جائے رب کے حضور جا رہی ہے
گر اقبال نے خواب وطن نہ دیکھا ہوتا ثمینہ
نہ ملتی تعبیر وطن عزیز کی صورت جو مل رہی ہے