دل اگر کچھ مانگ لینے کی اجازت مانگتا
یہ محبت زاد تجدید محبت مانگتا
وقت خود ناپائیداری کے لئے مشہور ہے
ایسے بے توفیق سے میں خاک شہرت مانگتا
میں نے صحرا سے تحیر خیز حیرت مانگ لی
خاک ہو جاتا اگر تہذیب وحشت مانگتا
دل کو خوش آئی نہیں یہ دولت آسودگی
اور کچھ مل جاتی تو یہ کچھ اور زحمت مانگتا
ہیں خداوندان دنیا ہم تہی دستوں سے ہیچ
دل کو حسرت تھی تو ہم جیسوں سے خلعت مانگتا
ہو گیا ہوتا گراں گوشوں سے گر مغلوب میں
کیوں سخن آغاز کرتا کیوں سماعت مانگتا
کیا تعجب تھا کہ اس سوداگری کے دور میں
خواب بھی تعبیر ہو جانے کی قیمت مانگتا