دل بہک جاتا ہے برسات کے ساتھ
ہم بگڑ جاتے ہیں حالات کے ساتھ
وہ مقدس ہے صحیفے کی طرح
حفظ ہو جاتا ہے آیات کے ساتھ
کتنے روشن ہیں در و بام خیال
ہم چمکنے لگے ذرات کے ساتھ
دشت جاں اور ترے درد کی لو
کون گزرا ہے مری رات کے ساتھ
یہ غنیمت ہے کہ ہم زندہ ہیں
لوگ مر جاتے ہیں عادات کے ساتھ
کوئی تدبیر فلک کی نہ چلی
ہم جواں ہو گئے آفات کے ساتھ
مصلحت سچ نہیں کہنے دیتی
لوگ بکتے ہیں کرامات کے ساتھ
ایک رغبت ہے مئے ناب سے قیسؔ
اک تعلق ہے خرابات کے ساتھ