دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
Poet: Ali Sardar Jafri By: ehsan, khi
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائے دوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا
دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں
اب ہم سے منہ میں موت کے جایا نہ جائے گا
مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر
کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا
مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اس قدر
یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے
من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے
مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے
تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے
تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے
مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد
اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل
کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد
رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں
بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد
تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ
بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے
ہے اور ہی کاروبار مستی
جی لینا تو زندگی نہیں ہے
ساقی سے جو جام لے نہ بڑھ کر
وہ تشنگی تشنگی نہیں ہے
عاشق کشی و فریب کاری
یہ شیوۂ دلبری نہیں ہے
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی
یہ برق ابھی گری نہیں ہے
دل میں جو جلائی تھی کسی نے
وہ شمع طرب بجھی نہیں ہے
اک دھوپ سی ہے جو زیر مژگاں
وہ آنکھ ابھی اٹھی نہیں ہے
ہیں کام بہت ابھی کہ دنیا
شائستۂ آدمی نہیں ہے
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے
انساں انساں بہت رٹا ہے انساں انساں بنے گا کب
وید اپنیشد پرزے پرزے گیتا قرآں ورق ورق
رام و کرشن و گوتم و یزداں زخم رسیدہ سب کے سب
اب تک ایسا ملا نہ کوئی دل کی پیاس بجھاتا جو
یوں میخانہ چشم بہت ہیں بہت ہیں یوں تو ساقی لب
جس کی تیغ ہے دنیا اس کی جس کی لاٹھی اس کی بھینس
سب قاتل ہیں سب مقتول ہیں سب مظلوم ہیں ظالم سب
خنجر خنجر قاتل ابرو دلبر ہاتھ مسیحا ہونٹ
لہو لہو ہے شام تمنا آنسو آنسو صبح طرب
دیکھیں دن پھرتے ہیں کب تک دیکھیں پھر کب ملتے ہیں
دل سے دل آنکھوں سے آنکھیں ہاتھ سے ہاتھ اور لب سے لب
زخمی سرحد زخمی قومیں زخمی انساں زخمی ملک
حرف حق کی صلیب اٹھائے کوئی مسیح تو آئے اب
چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا
عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
یہ ایک پل ہے اسے جاوداں بناتا جا
بھٹک رہی ہے اندھیرے میں زندگی کی برات
کوئی چراغ سر رہ گزر جلاتا جا
گزر چمن سے مثال نسیم صبح بہار
گلوں کو چھیڑ کے کانٹوں کو گدگداتا جا
رہ دراز ہے اور دور شوق کی منزل
گراں ہے مرحلۂ عمر گیت گاتا جا
بلا سے بزم میں گر ذوق نغمگی کم ہے
نوائے تلخ کو کچھ تلخ تر بناتا جا
جو ہو سکے تو بدل زندگی کو خود ورنہ
نژاد نو کو طریق جنوں سکھاتا جا
دکھا کے جلوۂ فردا بنا دے دیوانہ
نئے زمانے کے رخ سے نقاب اٹھاتا جا
بہت دنوں سے دل و جاں کی محفلیں ہیں اداس
کوئی ترانہ کوئی داستاں سناتا جا






