دل عِشْقِ اِلٰہی سے معمور ہوجانا ہے
اغیار کو دل میں تو بالکل نہ بسانا ہے
تَق٘ویٰ تو یہی ہے بس کانٹوں سے گزرنا ہے
دامن کو گناہوں سے اپنے تو بچانا ہے
ہو کتنا بڑا پاپی نہ یاس کبھی پھٹکے
لا تقنطو سے اپنا تو ظرف بڑھانا ہے
جیون تو یہ اپنا ہی دکھ سکھ کا تو سنگم ہے
ہر عسر کے پیچھے تو بس یسر کا آنا ہے
اعمال تو جیسے ہوں حالات بھی ویسے ہوں
اعمال کو اپنے تو پاکیزہ بنانا ہے
جیسا جو کیا ہے تو ویسا ہی بھرے گا وہ
جو بیج ہی بویا ہے پھل ویسا ہی کھانا ہے
یہ اثر کی ہے کوشش دل اس کا مُصَفّیٰ ہو
مَعْبُود حَقِیقی سے اب لو ہی لگانا ہے