کبھی ہوتا تھا وہ میرے پاس بہت
اب بھی ہے اس سے ملنے کی آس بہت
جب سے گیا ہے مجھے وہ چھوڑ کر
رہتا ہے دل میرا اداس بہت
اُسے دیکھے ہوئے بہت دن گذر گئے
مرے نینوں میں ہے اس کی دید کی پیاس بہت
وہ ملا تھا تو میں لوٹ آیا تھا زندگی کی طرف
بچھڑا تو دشوار ہو گیا ہے لینا اک سانس بہت
اب وہ بھی مجھے غیر سمجھنے لگا ہے کاشف
کبھی کہتا تھا جو اپنا شناس بہت