دل میں جس کا قیام ہوا کرتا تھا
لب پہ ہر دم اسی کا نام ہوا کرتا تھا
وہ آئے نہ آئے اس کی مرضی تھی لیکن
اس کیلئے ہیاں ہر روز اہتمام ہوا کرتا تھا
اک دور تھا کہ بے وجہ اس پہ پیار آتا
کوئی بھی ملتا جو تیرا ہمنام ہوا کرتا تھا
سارا دن بے وجہ ہم مسکراتے رہتے تھے
جس دن وہ ہم سے ہمکلام ہوا کرتا تھا
جانا ہوتا تھا ہمیں روز اسکے کوچے میں
کس کام سے جائیں یہ سوچنا کام ہوا کرتا تھا
اشفاق تیرے دل کا چمن ہے کیوں سُونا
یہاں کبھی اک گل رُو کا قیام ہوا کرتا تھا