وہ آج بھی دور پُرانے کی بات کرتا ہے
نہ جانے کس فسانے کی بات کرتا ہے
جتنا وہ بنتا ہے اتنا بھی معصوم نہیں
نظر سے گر کے دل میں اتر جانے کی بات کرتا ہے
ہم نے اس ہر سوال ہر جواب پر سر جھکا دیا
اور وہ ہم سے ہی جی چرانے کی بات کرتا ہے
اپنے ہاتھ سے جلا ڈالیں ساری شاخیں
اب وہ کس منہ سے آشیانے کی بات کرتا ہے
اس کی گلی میں جائیں اس سے ملیں کوئی نہ روکے
وہ شہر میں رہتا ہے دل ویرانے کی بات کرتا ہے