دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں آج بڑا سفر رہا
ہو نہ سکا ہمیں کبھی اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا لوح خیال پر رہا
نقش گروں سے چاہیئے نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو رنگ بہت بکھر رہا
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
دل مرے دل مجھے بھی تم اپنے خواص میں رکھو
یاراں تمہارے باب میں میں ہی نہ معتبر رہا
شہر فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچۂ یاد یار سے کوئی نہیں ابھر رہا