دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں
واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں
سو نہیں پائیں تو سونے کی دعائیں مانگیں
نیند آنے لگے تو خود کو جگانے لگ جائیں
اس کو ڈھونڈیں اسے اک بات بتانے کے لیے
جب وہ مل جائے تو وہ بات چھپانے لگ جائیں
ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں
اتنی تاخیر سے مت مل کہ ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں
جیت جائیں گی ہوائیں یہ خبر ہوتے ہوئے
تیز آندھی میں چراغوں کو جلانے لگ جائیں
تم مرے شہر میں آئے تو مجھے ایسا لگا
جوں تہی دامنوں کے ہاتھ خزانے لگ جائیں