دل کے سمندر میں ارماں آئے جاتےہیں
غم مگرمچھ بن کرانہیں کھائے جاتےہیں
سحری کےوفت روزہ تو رکھتےنہیں
رات کو یوں ہی دہی جمائےجاتےہیں
کبھی شکاری کاجال کبھی صیادکاقفس
ہم وہ پرندےہیں جو پھڑپھڑائےجاتےہیں
پیر بابا کےاپنے بیٹے کو ویزہ نہیں ملتا
مگراپنی مریدنیوں کی بگڑی بنائےجاتےہیں