دل ہوش سے بیگانہ بیگانے کو کیا کہئے
چپ رہنا ہی بہتر ہے دیوانے کو کیا کہئے
کچھ بھی تو نہیں دیکھا اور کوچ کی تیاری
یوں آنے سے کیا حاصل یوں جانے کو کیا کہئے
مجبور ہیں سب اپنی افتاد طبیعت سے
ہو شمع سے کیا شکوہ پروانے کو کیا کہئے
تجھ سے ہی مراسم ہیں تجھ سے ہی گلا ہوگا
بیگانے سے کیا لینا بیگانے کو کیا کہئے
مانا کہ وصیؔ شاہ سے تم کو ہیں بہت شکوے
دیوانہ ہے دیوانہ دیوانے کو کیا کہئے