دلوں میں سب کےوہ انمٹ نشان چھوڑ گیا
میرے نصیب میں یادوں کا دان چھوڑ گیا
نہ روک پائی اسے میٹھی سی سوندھی خوشبو
نظر میں پھیلے ہوئے پیلے د ھا ن چھوڑ گیا
سفر کی د ھول میں لپٹا ہوا وجود لیئے
نہ جانے اپنا ہی کیوں کاروان چھوڑ گیا
اذان وقت پہ لبیک کی صدا سن کے
کوئ تو تھا جو خالی دوکان چھوڑگیا
نہ جیت چھین سکےاس سےگردشں دوراں
وہ زندگی کاہر اک امتحان چھوڑ گیا
میں اسکے بعد کہیں خود کو نہ فنا کرلوں
چھپا کے خنجر خا لی میان چھو ڑ گیا
انا کے قید میں ہم دونوں ہی بندی تھے غزل
میں اسکو چھوڑ گئی وہ جہان چھوڑ گیا