دلِ صد چاک میں کیا رہ گیا ہے
لہو بہہ بہہ کے آدھا رہ گیا ہے
جہاں بانی رہا تھا جس کا شیوہ
وہ بالکل بے سہارا رہ گیا ہے
بنا بیٹھے ہیں کتنے بت جہاں میں
جو سچا ہے وہ تنہا رہ گیا ہے
عداوت کے یہ کس نے بیج بوئے
ہر اک انساں اکیلا رہ گیا ہے
تجھے سعدی تھی دریا کی بشارت
مگر آنکھوں میں صحرا رہ گیا ہے