چہرے پہ اپنے ڈال کے آیا نیا نقاب
نفرت کا اس نے کھول دیا بند تھا جو باب
اپنے گناہوں پر اسے افسوس نہ ملال
لغزش کا مجھ سے مانگتا ہے آج بھی حساب
میری ہر اک خطاء تو گناہ عظیم ہے
اپنی ریاء کو جیسے سمجھتا ہے وہ ثواب
تحقیر، جبر، ظلم و تشدد و انتقا م
اسکی منافقانہ سیاست کا ہے نصاب
جاہ و جلال، زعم و تکبر سے پھر یہاں
رہزن نے پھر کیا ہے نخوت زدہ خطاب
اسکی نگاہ حرص کا محور ہے اقتدار
جسکے حصول کے لیئے ڈھاتا ہے وہ عذاب
جسکو سکون بخشے جوانی ،حسن ،جمال
جسکی دواء شراب میں ڈوبا ہوا شباب
سرخی ہے جنمیں خون محبت کی اے حریص
کیسے کچلنے دوں میں تجھے یہ حسین گلاب
تجھ کو لگام ڈالنا اشہر کے بس میں ہے
دیتا ہے وہ ہی تجھ کو یاں دنداں شکن جواب