دنیا میں عبادت کو تری آئے ہوئے ہیں
پر حسن بتاں دیکھ کے گھبرائے ہوئے ہیں
افسوس عبادت نہ تری ہو سکی ہم سے
گردن نہیں اٹھتی ہے کہ شرمائے ہوئے ہیں
الزام نہیں طور جو سرمہ ہوا جل کر
موسیٰ بھی تجلی سے تو شرمائے ہوئے ہیں
میں برہمن و شیخ کی تکرار سے سمجھا
پایا نہیں اس یار کو جھنجھلائے ہوئے ہیں
کعبے سے نہ رغبت ہمیں نے دیر کی خواہش
ہم خانۂ دل میں جو اسے پائے ہوئے ہیں
ہے کون سی جا ہو جو ترے جلوے سے خالی
مضمون ہم اب دل میں یہی لائے ہوئے ہیں
ذلت کے خریدار ہوئے حرص کے بندے
حاجت کے لئے ہاتھ جو پھیلائے ہوئے ہیں
جس قوم میں دیکھا تو تجسس ترا پایا
معبد ترے ہر قوم میں ٹھہرائے ہوئے ہیں
بہرامؔ غزل اور بھی اک ان کو سنا دے
مشتاق تری بزم میں سب آئے ہوئے ہیں