عقبیٰ کی سمت کوچ کو تیار ہو گئے
دنیائے بے ثبات سے بیزار ہو گئے
راہِ خدا میں گھاٹیاں دشوار تھیں مگر
رکھا جو پیر نفس پہ تو پار ہو گئے
تھی سہل تیرے ساتھ میری منزلِ حیات
تیرے بنا یہ مرحلے دشوار ہو گئے
دل میں جو تیرے حسن کا جلوہ سما گیا
جتنے حسین پھول تھے سب خار ہو گئے
سنتا ہوں چارہ گر سے یہ مژدہ زہے نصیب
فیصلؔ بھی اب تو عشق کے بیمار ہو گئے