تمہاری آنکھیں تو شیش محلوں کی جگمگاہٹ کی عادی ہونگی
تمہارے کانوں کو سونے چاندی کی جھلملاتی اشرفیوں کی
سریلی جھنکاریں بھاتی ہونگی
تمہارے جسموں کو ڈھانپنے کے لیے ہمیشہ
عبائے اطلس قبائے زریں ہی آتی ہونگی
تمہارے محلوں کی چوکھٹوں پر ہر اک خوشی آج
ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی ہے
تمہاری باندی بنی ہوئی ہے
تمہیں فکر کیا
تمہارے محلوں میں زندگی اپنی دلفریبی کیساتھ
رقصاں و غزل سرا ہے
تہمارے محلوں کا گوشہ گوشہ ضیائے زر سے
دمک رہا ہے
چمک رہا ہے
تمہیں خبر کیا تمہاری دنیا سے ہٹ کر اک اور بھی جہاں ہے
جہاں کا موسم تمہاری جنت مثال دنیا کے موسموں سے
بہت جدا ہے
جہاں کے مجبور باسیوں کو
جہالتوں کے، اداسیوں کے، کسمپرسی کے، حسرتوں کے
دبیز سائے چہار جانب سے اپنے نرغے میں لے چکے ہیں
جہاں کے ہر گھر میں بھوک و افلاس و خود کشی کے
منحوس جالے تنے ہوئے ہیں
جہاں زمیں سے گیہوں کے بدلے
وباء و امراض پھوٹتے ہیں
تمہیں خبر کیا کہ اُس جہاں میں
خدا کا بندہ جو معتبر تھا
جسے بنایا تھا اس نے افضل
وہی رزالت کی چادر اوڑھے
سسک سسک کر بلک بلک کر حیات کے دن گزارتا ہے
تمہیں خبر کیا کہ کچی بستی کا کوئی باسی
اندھیری راتوں کے سرد لمحوں میں
اپنے بچوں کے سامنے ہی حیات کی جنگ ہارتا ہے
تمہیں خبر کیا کہ اس جہاں کے
ہوس کے مارے سیاہ اندھیروں نے
کتنی معصوم مریموں کے سفید دامن سیاہ کیئے ہیں