بس یہی ہے ہماری خطا دوستو
کیوں نہ ہنس کے ستم ہر سہا دوستو
بیوفائی کی تہمت پہ راضی ہیں ہم
کب ہے خود کو کہا باوفادوستو
ہم سے تکمیلِ بغض و عداوت ہوئی
ظلم ہاں ہم نے سب ہی کیا دوستو
نارسائی کا غم اپنا مقسوم ہے
جرمِ اُلفت کی ہے یہ سزا دوستو
ہم سزاوارِ سمع و اطاعت ہوئے
اذنِ دوری ہُوا ہم ہَوا دوستو
بات لیکن یہ پوچھیں جو ہو نہ خفا
ہم سا کوئی جہاں میں ملا دوستو
جس طرح خاک قدموں تلے ہم ہوئے
کوئی تم پہ ہو ا یوں فدا دوستو
جان و دل ہوں کئے جس نے پامال سب
کوئی ایسا بھی ہے دوسرادوستو