دوستوں کو بہم نہیں ہوتا
آدمی محترم نہیں ہوتا
میرے پندار کا تقاضا ہے
سرِ تسلیمِ خم نہیں ہوتا
موت نے بارہا تسلی دی
خوف جینے کا کم نہیں ہوتا
سرحدیں ہیں زمین کی قسمت
آسماں منقسم نہیں ہوتا
آپ سے دوستی ہے ناممکن
تیل پانی میں ضم نہیں ہوتا
درد بے شکل سی وہ پرچھائیں
جس کا حلیہ رقم نہیں ہوتا
سب کو جینے کا غم تو ہوتا ہے
سب کو مرنے کا غم نہیں ہوتا
اس پہ آنکھیں نکالتے ہیں سبھی
جس کے بازو میں دم نہیں ہوتا
بے دھڑک آیئے گلے ملیے
سب کی جیکٹ میں بم نہیں ہوتا
آشنا دھوپ سے نہیں جو امـؔر
ایسی مٹی میں نم نہیں ہوتا