نومبر کا جانا دسمبر کا آنا
ہوا یاِد ماضی کا پھر آنا جانا
وہ ماضی کی یادوں کا خود کا سنانا
تھا کتنا سہانا وہ منظر پرانا
مجھے یاد آتا ہے پچھال زمانہ
وہ ملنے کا کرتے تھے ہم سب بہانا
وہ ملکر تھا یاروں کا دعوت اُڑانا
سبھی دوستوں کا تھا محفل سجانا
وہ روٹھے ہوئے کو تھا ہنس کر منانا
سبھی دوستوں کا عجب تھا یارانہ
سبھی چل دیے ہیں کمانے کو دانہ
نہ سوجھا کسی کو بھی یاری نبھانا
دلوں کے چمن میں بہاروں کا ِکھلنا
ہوا باغ بُلبُل خزاں میں بدلنا
رہا نہ کوئی یار بیلی دیوانہ
بچا بس م ری یادوں کا یہ ترانہ
منیب ان کی یادوں کا اب چھوڑ گانا
گئے چھوڑ کر جو انہیں کیا بالنا