اک آوارگی میں یوں ہی دل کا سکوں کھو گیا
دیکھا ہو جیسے کسی سمندر میں دریا سمو گیا
یاروں کو تھا گماں کہ وقتِ وداع خوب ہوگا مزا
پاگلوں بھرم یہی رہتا مگر اشکوں نے کیا بدمزا
عالم وہ اب نہیں، جو کبھی تھا اس کہانی میں
یار ہو رہے جدا، بہتے ہیں اشک روانی میں
تلخ تھے لمحے مگر بھلا نہ سکے ہم وہ داستان
یار بنے تم تو مسکراہٹ بھی ہوئی بے نشان
ہے آرزو کہ تم کو خدا بخشے زیست ویسی
ہم یکجا رہتے، پر کہاں قسمت تھی ایسی