اگر کوئی بیچارہ کئی سالوں سے تیری محفل میں آتا ہے
غزلوں نظموں سے تیری محفل کو سجاتا رہے
ہر بار اپنی وفا کا یقیں دلاتے رہے
اور ساتھ یہ بات بھی باور کراتا رہے
اس بزم سخن میں یوں ہی آتا رہوں گا
تجھے اپنے دل کا حال سناتا رہوں گا
پھر اچانک وہ تیری محفل میں آنا سکے
آکر تجھے دل کی بات بتانا سکے
تو سمجھ لینا وہ بے بس ہے مجبور ہے
اسی لیے وہ اپنے چاہنے والوں سے دور ہے
اس کے سپنے ٹوٹ چکے ہیں
اس کے پیارے روٹھ چکے ہیں
اس کا دل زخموں سے چور ہے
کوئی جان سے پیارا اس سے دور ہے
کاش اس کے حق میں کوئی یہ دعا کرے
اس کا یار اسے مل جائے خدا کرے