ہمارے بعد چلی رسم دوستی کہ نہیں
ہوا کی زد پہ کوئی تازہ غزل ہوئی کہ نہیں
سنا ہے عام تھا کل شب کو چاند کی بخشش
بجھے گھروں میں بھی اتری ہے چاندنی کہ نہیں
نکل کے جس سے ہوا اپنا درد آوارہ
کسی کے دل میں وہ محفل سجی کہ نہیں
وہ رہگزر جو اندھیروں میں سانس لیتی تھی
تمھارے نقش قدم سے چمک اٹھی کہ نہیں
دیار ہجر سے آئے ہو کچھ کہو محسن کہ
شام غم بھی کسی موڑ پہ ملی کہ نہیں