مقدر پے کوئی بس ہمارا نہیں چلتا
سمندر کےساتھ کبھی کنارہ نہیں چلتا
محفلوں میں زبانی اقرارہو جاتے ہیں
اب وہاں کوئی اشارہ نہیں چلتا
ایک ہاتھ لے دوسرے ہاتھ دے
یہاں کوئی کام ادھارہ نہیں چلتا
یہ سب نئےدور کی سوغاتیں ہیں
دوستی میں اب خسارہ نہیں چلتا
اپنی پہچان خود ہی بنانی پڑتی ہے
دنیا میں کسی دوسرے کا سہارہ نہیں
یہ تو سدا گردش میں ہی رہتا ہے
کون کہتا ہے کہ ہمارے مقدر کا ستارہ نہیں چلتا