میں دوستی کے اصولوں کا بھرم چاہتا ہوں
کتنا ہے پاسدار اسے، یہ دیکھنا چاہتا ہوں
سنا ہے بات کا دھنی ہے، چلو بات کر کے دیکھتا ہوں
اسکی زبان پہ اک بار اعتبار کر کے دیکھتا ہوں
لفظ زبان سے نکال کے، اسکا پلٹنا دیکھتا ہوں
جو تیر ابھی کمان میں ہے، اسکا نکلنا دیکھتا ہوں
جو شب بھی نکلتا ہے، تیر بن کے نکلتا ہے
سب تیروں کا نشانہ، میں اپنی طرف دیکھتا ہوں