دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
Poet: Nasir Kazmi By: ulfat, khi
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا 
 یاد نے کنکر پھینکا ہوگا
 
 آج تو میرا دل کہتا ہے 
 تو اس وقت اکیلا ہوگا
 
 میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے 
 اوروں کو خط لکھتا ہوگا
 
 بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں 
 تو اب تھک کر سویا ہوگا
 
 ریل کی گہری سیٹی سن کر 
 رات کا جنگل گونجا ہوگا
 
 شہر کے خالی اسٹیشن پر 
 کوئی مسافر اترا ہوگا
 
 آنگن میں پھر چڑیاں بولیں 
 تو اب سو کر اٹھا ہوگا
 
 یادوں کی جلتی شبنم سے 
 پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا
 
 موتی جیسی شکل بنا کر 
 آئینے کو تکتا ہوگا
 
 شام ہوئی اب تو بھی شاید 
 اپنے گھر کو لوٹا ہوگا
 
 نیلی دھندھلی خاموشی میں 
 تاروں کی دھن سنتا ہوگا
 
 میرا ساتھی شام کا تارا 
 تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا
 
 شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو 
 میرا سلام تو بھیجا ہوگا
 
 پیاسی کرلاتی کونجوں نے 
 میرا دکھ تو سنایا ہوگا
 
 میں تو آج بہت رویا ہوں 
 تو بھی شاید رویا ہوگا
 
 ناصرؔ تیرا میت پرانا 
 تجھ کو یاد تو آتا ہوگا 
  
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کہ تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یوں ہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیار سے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھا ئی ہے بارہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کوئی مِٹنا تھا مِٹ چکے ناصر
ان کو رسوا کرے نہ اب کوئی
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو برسوں بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہین وفا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے
اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے
غم کی بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
غمگسار سفرِ راہِ وفا
مژۂ آبلہ پا ہوتی ہے
گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے
جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
جب کوئی غم نہیںہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے
Meri zindagi hai tu
Aafaton ke daur mein
Chain ki ghari hai tu
Meri raat ka chirag
Meri neend bhi hai tu
Mein khizaan ki shaam hu
Rut bahaar ki hai tu
Doston ke darmiyaan
Vajh-e-dostii hai tu
Meri saari umr mein
Ek hi kami hai tu
Mein toh vo nahin raha
Haan! Magar vohi hai tu
"Nasir" is dayaar mein
Kitna ajnabi hai tu
میری زندگی ہے تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصرؔ اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
یاد آئی تری انگشت حنائی مجھ کو
سر ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
انہی آنکھوں نے دکھائے کئی بھرپور جمال
انہیں آنکھوں نے شب ہجر دکھائی مجھ کو
سائے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردش وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ ادھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا تھا ادھر
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی مجھ کو
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 