شہِ کوثر کا بٹتا ہے جہاں میں ہر طرف باڑا
جو اُن سے دور ہوگا وہ رہے گا ہر جگہ تنہا
ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے دکھا دے یاخدا طیبہ
سیاہی دل کی دھل جائے جو دیکھوں گنبدِ خضرا
جہاں میں چار جانب نفرتوں کا بول بالا تھا
محبت کا مروّت کا اخوت کا کیا چرچا
کہ باندھا پیٹ پر پتھر چٹائی کا رہا بستر
دیا ہے سادگی کا درس ہم کو آپ نے ایسا
یتیموں ، بے کسوں ، بیواوں ، مظلوموں کو آقا نے
عطا کی عزّتیں ، جینے کا اُن کو حوصلہ بخشا
بنایا پیکرِ بے مثل اپنے چار یاروں کو
صداقت کا ، عدالت کا ، سخاوت کا ، شجاعت کا
مُشاہدؔ کچھ نہ تھا اوقات بھی رکھتا نہیں تھا کچھ
کرم سے آپ کے کہلارہا ہے نعت گو شاہا