دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
Poet: Deewan-e-Ghalib By: owais, khi
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا 
 عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا 
 
 تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا 
 اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا 
 
 تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں 
 مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا 
 
 دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب 
 اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا 
 
 جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی 
 دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا 
 
 احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے 
 زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا 
 
 یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے 
 حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا 
 
  
More Mirza Ghalib Poetry








 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 