دیوانگی سے‘ دوش پہ زناّر بھی نہیں
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
دیوانگی سے‘ دوش پہ زناّر بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا‘ تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا تیرا اگر نہیں آساں‘ تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ‘ دشوار بھی نہیں
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے‘ اور یاں
طاقت‘ بقدرِ لذتِ آزار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے‘ ہے سر وَ بالِ دوش
صحرا میں‘ اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
گنجایشِ عداوتِ اغیار‘ یک طرف
یاں دل میں‘ ضعف سے‘ ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے‘ خدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں‘ ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آنکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون مر جائے‘ اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بار ہا
دیوانہ گر نہیں ہے‘ تو ہشیار بھی نہیں
More Mirza Ghalib Poetry
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
فہد






