دیکھ کر رات رہ نہیں سکتے
محوِ ظلمات رہ نہیں سکتے
تِیرگی میں چراغ جلتے ہیں
اور سقراط رہ نہیں سکتے
زور لفظوں میں ہو یا اشکوں میں
دل میں جذبات رہ نہیں سکتے
ظلم ٹوٹے گا یا وطن یارو
ایسے حالات رہ نہیں سکتے
کچھ برَہمن ہیں دیس پر قابض
اِس میں کم ذات رہ نہیں سکتے
ہم ہیں آمادہِ زباں بندی
پر جو نغمات رہ نہیں سکتے!
وصل ہے جاں سِتاں، پہ کیا کیجے
بِن ملاقات رہ نہیں سکتے
عشق ہے ماورائے ننگ مُنیبؔ
اِس میں خدشات رہ نہیں سکتے