دیکھو وہ کوئی لڑکی ٹی وی پہ گا رہی ہے
آواز سے وہ اپنی جادو جگا رہی ہے
جتنے بھی ہیں پڑوسی سب اس کو سن رہے ہیں
ہر گھر سے بس اُسی کی آواز آرہی ہے
جتنے ہیں ننھے بچے، یوں سو رہے ہیں گویا
اُن کو یہ التزاماً لوری سنارہی ہے
سارے جوان لڑکے یوں محو ہو رہے
اِن نوجواں دِلوں کو کیا ہی لُبھا رہی ہے
جو سن رہے ہیں اس کو،ایسے بزرگ بھی ہیں
اُن کے جواں دِلوں کی نیندیں اُڑا رہی ہے
’’اٹھکھیلیوں کا سِن ہے، ہنس بولنے کے دِن ہیں‘‘
آواز سے وہ لیکن آفت سی ڈھارہی ہے
ہم بھی بس اتفاقاً یہ گیت سُن رہے ہیں
جولانیء طبیعت کیا گُل کھِلا رہی ہے
دالان میں کھڑی ہے، ہاتھوں میں تھامے بیلن
بیگم ہماری ہم کو آنکھیں دِکھا رہی ہے
ہاں ! دیکھنا تو پپو! چینل یہ کون سا ہے؟
کل دیکھ لیں گے اِس کو، اب نیند آرہی ہے
دیکھو وہ کوئی لڑکی ٹی وی پہ گارہی ہے
(اختر شیرانی کی روح سے معذرت کے ساتھ)