دیکھی ہیں بزم شوق کی رعنائیاں بہت
لکھی تھیں پر نصیب میں تنہائیاں بہت
حیراں ہوں کس طرح سے وہ مقبول ہو گیا
کہنے کو اس کے ساتھ تھیں رسوائیاں بہت
ہم تو حصار ہجر سے باہر نہ جا سکے
اس کی تو شہر میں تھیں شناسائیاں بہت
کندن سا جسم جھوٹی انا پر لٹا دیا
کانوں میں گونجتی رہیں شہنائیاں بہت
خود اپنی ذات میں ہی مکمل غزلؔ ہیں ہم
دیکھی ہیں ہم نے حسن کی رعنائیاں بہت