ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
کھلی چھتوں کے دیئے کب کے بجھ گئے ہوتے
کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے
یہ دیکھنا ہے کہ صحرا بھی ہے سمندر بھی
وہ میری تشنہ لبی کس کے نام کرتا ہے
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
زمیں کی کیسی وکالت ہو پھر نہیں چلتی
جب آسماں سے کوئی فیصلہ اترتا ہے