ذرا سی ٹھیس لگنے پر آئینہ ٹوٹ جاتا ہے
اسی نازک سی شے میں تو کوئی مسکن بناتا ہے
کسی کی آرزو تو زندگی میں رنگ لاتی ہے
کسی کی جستجو میں تو مقدر سنور جاتا ہے
نگاہیں غیب پر جم جائیں تو تائیدِ غیبی ہو
نگاہیں جو سبب پر ہوں کنارا مل نہ پاتا ہے
کسی کے پاس تھے دو باغ لیکن معرفت نہ تھی
کیا برباد اس کا باغ وہ یوں آزماتا ہے
کبھی نہ سانچ کو تو آنچ آئے یہ یقینی ہے
رہے جو حق پہ قائم تو وہ ہی غالب آجاتا ہے
زمانہ روٹھ بھی جائے تو ہم اس سے نہیں ڈرتے
ہمارے سامنے خود کو تو وہ بے بس ہی پاتا ہے
کسی کی یاد میں تو اثر کو بس چین ملتا ہے
کسی کی یاد میں بس محو رہنا جی کو بھاتا ہے