دیں پہ چلنا جو ہم کو آساں ہے
یہ محض ہم پہ فضلِ یزداں ہے
کیسے مدحت تیری بیان کریں
فکر ساکت ہے عقل حیراں ہے
اُس کے جلوے ہیں چار سُو بکھرے
ذرّے ذرّے میں وہ نمایاں ہے
دونوں عالم میں جو سما نہ سکا
اُجڑے دل میں مرے وہ مہماں ہے
لاکھ فیصلؔ ہوا مخالف ہو
شمع ایمان کی فروزاں ہے