ذِکر تیرا جہاں، وہاں ٹھہرے
درد والے کہاں کہاں ٹھہرے!
اشک راہی ہیں اور تُو منزل
تُو ہی آئے نہ کارواں ٹھہرے
جو بھی کرنا ہے جلد ہی کر لو
وقت کس کے لئے مِیاں ٹھہرے؟
اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے
شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟
بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!
کچھ تعلق نہیں تھا دُنیا سے
چار پَل کو مگر یہاں ٹھہرے