ذکر میرا‘ بہ بدی بھی‘ اسے منظور نہیں
Poet: MIRZA GHALIB By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
ذکر میرا‘ بہ بدی بھی‘ اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے‘ تو کچھ دور نہیں
وعدۂ سیر گلستاں ہے‘ خوشا طالعِ شوق!
مژدۂ قتل مقدر ہے‘ جو مذکور نہیں
شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے‘ عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ’’ ہے ‘‘ پر ہمیں منظور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا‘ لیکن
ہم کو تقلیدِ تنک ظرفیِ منصور نہیں
حسرت! اے ذوقِ خرابی کہ‘ وہ طاقت نہ رہی
عشق پرُ عربدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں
میں جو کہتا ہوں کہ ’’ ہم لینگے قیامت میں تمھیں ‘‘
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم حور نہیں ‘‘
ظلم کر’ ظلم! اگر لطفِ دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں‘ ہم لوگ
وائے! وہ بادہ کہ‘ افشردۂ انگور نہیں
ہوں ظہوریؔ کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں
More Mirza Ghalib Poetry
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل
جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے
مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل
سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل
تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل
غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل
دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے
ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل
مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں
اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
فہد






